ریفریجریٹر کے بغیر ویکسین کو کئی ہفتے محفوظ رکھنے کا کم خرچ طریقہ ایجاد
ابتدائی تجربات میں ماہرین نے دو الگ الگ ویکسینز کو کمرے کے عام درجہ حرارت اور 37 ڈگری سینٹی گریڈ جتنے گرم ماحول میں 12 ہفتوں (تقریباً تین مہینوں) تک محفوظ رکھنے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس طریقے کا قابلِ عمل ہونا ثابت کیا ہے۔
یہ طریقہ آسٹریلوی حکومت کے ماتحت مرکزی سائنسی و صنعتی تحقیق کے ادارے ’سی ایس آئی آر او‘ میں ماہرین کی ایک ٹیم نے ایجاد کیا ہے جس کی قیادت بھارتی نژاد ڈاکٹر روحانی سنگھ کررہے تھے۔
اس نئے طریقے میں ’میٹل آکسائیڈ فریم ورک‘ (MOF) کہلانے والے مادّے استعمال کیے گئے ہیں جو مسام دار، قلم دار (کرسٹلائن) اور حل پذیر (dissolvable) ہوتے ہیں۔
ویکسین کے ساتھ شامل ہوجانے کے بعد، یہ مادّے کسی حفاظتی حصار کا کام کرتے ہوئے ویکسین کے سالمات (مالیکیولز) کو اپنے اندر بند کرکے محفوظ کرلیتے ہیں۔
ایم او ایف مادّے ویکسین کے ساتھ کوئی کیمیائی عمل نہیں کرتے لیکن اسے ماحول کی سختی، بالخصوص گرمی کے اثرات سے بچاتے ہیں اور لمبے عرصے تک اصل حالت میں برقرار رکھتے ہیں۔
جب بھی کسی کو ویکسین لگانے کی ضرورت ہوگی تو ایک خاص لیکن بے ضرر مائع اس محلول میں شامل کردیا جائے گا جو ایم او ایف کو تحلیل کرکے ویکسین کو آزاد کردے گا، جس کے بعد وہ کسی بھی دوسری عام ویکسین کی طرح لگا دی جائے گی۔
ابتدائی تجربات میں یہ طریقہ جن دو ویکسینز پر آزمایا گیا ان میں سے ایک انسانی زکام کی، جبکہ دوسری مرغیوں کو ہلاکت خیز وائرس ’این ڈی وی‘ سے بچانے والی ویکسین تھی۔
ویکسینز کے ساتھ ایم او ایف مادّے شامل کرنے کے بعد وقفے وقفے سے جائزہ لیا جاتا رہا جس سے معلوم ہوا کہ ویکسینز خاصے گرم ماحول میں (37 ڈگری سینٹی گریڈ پر) بھی کم از کم 12 ہفتوں تک بالکل صحیح اور قابلِ استعمال حالت میں رہیں۔
واضح رہے کہ آج کل کسی بھی عام ویکسین کو 2 سے 8 ڈگری سینٹی پر محفوظ رکھنا پڑتا ہے ورنہ وہ صرف چند گھنٹوں سے لے کر چند دن تک میں خراب (ایکسپائر) ہوجاتی ہیں۔
جدید ’ایم آر این اے ویکسینز‘ کا معاملہ اور بھی زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ انہیں عام ڈیپ فریزر کے مقابلے میں بھی شدید سرد ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان دونوں صورتوں میں ہی ویکسینز کو بحفاظت رکھنے کے اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر روحانی اور ان کے ساتھیوں کو امید ہے کہ یہ ایجاد خاص طور پر غریب اور کم وسائل والے ملکوں کے بہت کام آئے گی جہاں ویکسین محفوظ رکھنے والے ریفریجریٹرز اور ڈِیپ فریزر جیسی چیزیں بہت کم ہیں۔
ایسے میں دور دراز مقامات تک منتقلی کے دوران ہی ویکسین خراب ہوسکتی ہے۔
اس بارے میں عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صرف مناسب حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں 50 فیصد سے زیادہ ویکسینز ضائع ہوجاتی ہیں۔
اگر یہ نیا طریقہ اگلے مراحل میں بھی قابلِ عمل اور محفوظ ثابت ہوا تو امید ہے کہ جلد ہی ویکسین کے ضیاع میں کمی کے علاوہ ویکسین کی محفوظ ذخیرہ کاری (سیف اسٹوریج) کے اخراجات بھی نمایاں طور پر کم ہوجائیں گے۔
0 Comments